EN हिंदी
مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے | شیح شیری
mujhse uncha tera qad hai, had hai

غزل

مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے

جیم جاذل

;

مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے؟ حد ہے

میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے

تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے

عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے

زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے

بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے

اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ ترے ضبط کی حد ہے؟ حد ہے

روک سکتے ہو تو روکو جاذلؔ
یہ جو سانسوں کی رسد ہے، حد ہے