EN हिंदी
مجھ سے شکیب قلب کا ساماں نہ ہو سکا | شیح شیری
mujhse shakeb-e-qalb ka saman na ho saka

غزل

مجھ سے شکیب قلب کا ساماں نہ ہو سکا

مخمور جالندھری

;

مجھ سے شکیب قلب کا ساماں نہ ہو سکا
اس پر بھی دل کا راز نمایاں نہ ہو سکا

یہ دل مٹا مٹا سا یہ شعلہ بجھا بجھا
ایک آفتاب سے بھی فروزاں نہ ہو سکا

سلجھائے تیری زلف پریشاں کے بل مگر
قائم نظام عالم امکاں نہ ہو سکا

تجھ کو ترے شباب کو رنگ بقا دیا
اپنی ہی زیست کا کوئی ساماں نہ ہو سکا

چھڑکی ترے تبسم پنہاں کی چاندنی
خلوت کا رنگ پھر بھی درخشاں نہ ہو سکا

بیٹھا رہا جو گیسوئے مشکیں کے سائے میں
وہ پائمال گردش دوراں نہ ہو سکا

آئینہ عکس جلوہ سے ٹوٹا نہیں کبھی
دل یورش جمال سے حیراں نہ ہو سکا

نشے میں تیرے پاؤں پہ گرتا جبیں کے بل
مخمورؔ اتنا کیف بہ داماں نہ ہو سکا