مجھ سے مل کر خود کو کیا پائے گا تو
اور تنہا ہو کے رہ جائے گا تو
یہ ٹھٹھرتی دھوپ ہے اس دھوپ میں
کیسے اپنا خون گرمائے گا تو
ہڈیوں کا درد پینا ہے تو پی
ورنہ ساری عمر پچھتائے گا تو
سانپ کے بل میں نہ کر امرت تلاش
یوں تو خود کو بھی گنوا آئے گا تو
تیری پرچھائیں سمٹتی جائے گی
جیسے جیسے پھیلتا جائے گا تو
تیرا پتھر جسم ہو جائے گا چور
جب کسی شیشے سے ٹکرائے گا تو
یوں نہ گھونٹ ان سنگریزوں کے گلے
خود شکار سنگ ہو جائے گا تو

غزل
مجھ سے مل کر خود کو کیا پائے گا تو
چندر بھان خیال