مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی پریشان تھا بہت
جس کی نظر میں کام یہ آسان تھا بہت
سوچا تو بے خلوص تھیں سب اس کی قربتیں
جس کے بغیر گھر مرا ویران تھا بہت
بے خواب سرخ آنکھوں نے سب کچھ بتا دیا
کل رات دل میں درد کا طوفان تھا بہت
یہ کیا کیا کہ پیار کا اظہار کر دیا
میں اپنی اس شکست پہ حیران تھا بہت
وحشت میں کیوں کسی کے گریباں کو دیکھتا
میرے لیے تو اپنا گریبان تھا بہت
اب تو کوئی تمنا ہی باقیؔ نہیں رہی
یہ شہر آرزو کبھی گنجان تھا بہت
غزل
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی پریشان تھا بہت
باقی احمد پوری