مجھ سے بیزار گرنے والی تھی
سر سے دستار گرنے والی تھی
اس نے تصویر ٹانک دی اپنی
ورنہ دیوار گرنے والی تھی
میری بیساکھیوں نے آہ بھری
جب وہ ناچار گرنے والی تھی
کتنی خوش تھی وہ جست بھرتی ہوئی
جیسے اس پار گرنے والی تھی
کھائی تھی کوئی خواب تھوڑی تھا
آنکھ بیکار گرنے والی تھی
خون فاتح قرار پایا تھا
غم سے تلوار گرنے والی تھی
بھاگتے بھاگتے مرے ہم راہ
میری رفتار گرنے والی تھی
ایک ڈھونگی کی مہربانی ہے
ورنہ سرکار گرنے والی تھی
غزل
مجھ سے بیزار گرنے والی تھی
سرفراز آرش