EN हिंदी
مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی | شیح شیری
mujhse aankhen laDa raha hai koi

غزل

مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی

شفیق خلش

;

مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی
میرے دل میں سما رہا ہے کوئی

ہے تری طرح روز راہوں میں
مجھ سے تجھ کو چھڑا رہا ہے کوئی

پھر ہوئے ہیں قدم یہ من من کے
پاس اپنے بلا رہا ہے کوئی

نکلوں ہر راہ سے اسی کی طرف
راستے وہ بتا رہا ہے کوئی

کیا نکل جاؤں عہد ماضی سے
یاد بچپن دلا رہا ہے کوئی

پھر سے الفت نہیں ہے آساں کچھ
بھولے نغمے سنا رہا ہے کوئی

دھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں
میرے نزدیک آ رہا ہے کوئی

وہ جو کہتا ہے بھول جاؤں خلش
وقت اس پر کڑا رہا ہے کوئی