مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں
کیا رشک دیکھ کر مجھے رنگ خزاں نہیں
آنکھوں سے دیکھ کر تجھے سب ماننا پڑا
کہتے تھے جو ہمیشہ چنیں ہے چناں نہیں
اٹھ کر سحر کو سجدۂ مستانہ کے سوا
طاعت قبول خاطر پیر مغاں نہیں
افسردہ دل ہو در در رحمت نہیں ہے بند
کس دن کھلا ہوا در پیر مغاں نہیں
اے جذب شوق رحم کہ مد نظر ہے یار
جا سکتی واں تلک نگہ ناتواں نہیں
شب اس کو حال دل نے جتایا کچھ اس طرح
ہیں لب تو کیا نگہ بھی ہوئی ترجماں نہیں
کٹتی کسی طرح سے نہیں یہ شب فراق
شاید کہ گردش آج تجھے آسماں نہیں
اچھا ہوئی نکل گئی آہ حزیں کے ساتھ
اک قہر تھی بلا تھی قیامت تھی جاں نہیں
جانے ہے دل فلک کا مری سخت جانیاں
ان ناتوانیوں کو پہنچتی تواں نہیں
کہتا ہوں اس سے کچھ میں نکلتا ہے منہ سے کچھ
کہنے کو یوں تو ہے گی زباں اور زباں نہیں
مہکا ہوا ہے بیت حزن دیکھنا کوئی
آیا نسیم مصر کا ہو کارواں نہیں
لب بند ہوں تو روزن سینہ کو کیا کروں
تھمتا تو مجھ سے نالۂ آتش عناں نہیں
کیا کچھ نہ کر دکھاؤں پر اک دن کے واسطے
ملتا بھی ہم کو منصب ہفت آسماں نہیں
وہ شاخ نخل خشک ہوں میں کنج باغ میں
دیکھے ہے بھول کر بھی جسے باغباں نہیں
بے وقت آئے دیر میں کیا شورشیں کریں
ہم پیرو پیر میکدہ بھی نوجواں نہیں
آزردہؔ نے پڑھی غزل اک مے کدہ میں کل
وہ صاف تر کہ سینہ پیر مغاں نہیں
غزل
مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں
مفتی صدرالدین آزردہ