EN हिंदी
مجھ پر نگاہ گردش دوراں نہیں رہی | شیح شیری
mujh par nigah-e-gardish-e-dauran nahin rahi

غزل

مجھ پر نگاہ گردش دوراں نہیں رہی

اقبال عابدی

;

مجھ پر نگاہ گردش دوراں نہیں رہی
شاید کسی کی زلف پریشاں نہیں رہی

وحشت تک آ گیا ہے محبت کا سلسلہ
اب مجھ کو فکر جیب و گریباں نہیں رہی

میرے جگر میں خون کے قطرے نہیں رہے
ان کی نظر میں برش پنہاں نہیں رہی

ذوق طلب سے تیری عنایات بڑھ گئیں
میری نظر میں وسعت داماں نہیں رہی

دل یوں بجھا بجھا سا ہی کھو کر تمہاری یاد
محفل میں جیسے شمع فروزاں نہیں رہی

کس درجہ دل شکن ہے گلستاں کا انقلاب
بلبل بھی اب چمن میں غزل خواں نہیں رہی

اقبالؔ سرد ہو گئی بزم حیات بھی
جب سے دلوں میں آتش سوزاں نہیں رہی