مجھ میں سوئے ہوئے ماہتاب سے کم واقف ہے
تو مری آنکھ کے تالاب سے کم واقف ہے
بغض اعدا خوۓ احباب سے کم واقف ہے
جو مرے حلقۂ ارباب سے کم واقف ہے
سطوت قصر شہی دھوکے میں رکھتا ہے کہ جو
عظمت گنبد و حراب سے کم واقف ہے
عشق کی چاہیے تعلیم ابھی اور اسے
جو محبت ادب آداب سے کم واقف ہے
زیست کرنے کو بہت چشم فسوں کار مجھے
وہ مرے عشق کے زرتاب سے کم واقف ہے
معنوی طور پر اس پہ میں مکمل نا کھلی
وہ مری ذات کے اعراب سے کم واقف ہے
تجھ پہ میں کھولوں گی اک دن سبھی اوراق جمال
تو ابھی حسن کے ابواب سے کم واقف ہے
کیا بنے گا جو نا ٹل پائی بلاۓ فرقت
ہجر تو وصل کے اسباب سے کم واقف ہے
ایک ہی شخص کا کرتی ہے ادب دھڑکن بھی
دل تو دنیا ترے آداب سے کم واقف ہے
اتنا پوشیدہ اسے رکھا ہے عنبرؔ سب سے
آنکھ اپنی بھی مرے خواب سے کم واقف ہے
غزل
مجھ میں سوئے ہوئے ماہتاب سے کم واقف ہے
نادیہ عنبر لودھی