مجھ کو یوں مجھ سے ملا دے کوئی
میں صدا دوں تو صدا دے کوئی
میں نے پوچھا تو ہے انجام وفا
اب یہ ڈر ہے نہ بتا دے کوئی
آرزو یہ ہے کہ خوشبو اپنی
میری سانسوں میں بسا دے کوئی
اس کے رخسار شفق گوں کی چمک
میرے ہونٹوں پہ سجا دے کوئی
جو جفا پیار سے تو نے کی ہے
اس کو کیوں کر نہ بھلا دے کوئی
خون دل سے جو لکھا ہے میں نے
کاش اشکوں سے مٹا دے کوئی
نظریں پھر اس کو اٹھا بھی نہ سکیں
خود کو اتنا نہ گرا دے کوئی
عشق میں باندھ کے پیمان وفا
مجھ کو جینے کی دعا دے کوئی
سمجھیں ہم زہر تمنا اس کو
اپنی آنکھوں سے پلا دے کوئی
آس ہی ٹوٹ نہ جائے خالد
جب دوا دے نہ دعا دے کوئی

غزل
مجھ کو یوں مجھ سے ملا دے کوئی
خالد فتح پوری