EN हिंदी
مجھ کو یوں مجھ سے ملا دے کوئی | شیح شیری
mujhko yun mujhse mila de koi

غزل

مجھ کو یوں مجھ سے ملا دے کوئی

خالد فتح پوری

;

مجھ کو یوں مجھ سے ملا دے کوئی
میں صدا دوں تو صدا دے کوئی

میں نے پوچھا تو ہے انجام وفا
اب یہ ڈر ہے نہ بتا دے کوئی

آرزو یہ ہے کہ خوشبو اپنی
میری سانسوں میں بسا دے کوئی

اس کے رخسار شفق گوں کی چمک
میرے ہونٹوں پہ سجا دے کوئی

جو جفا پیار سے تو نے کی ہے
اس کو کیوں کر نہ بھلا دے کوئی

خون دل سے جو لکھا ہے میں نے
کاش اشکوں سے مٹا دے کوئی

نظریں پھر اس کو اٹھا بھی نہ سکیں
خود کو اتنا نہ گرا دے کوئی

عشق میں باندھ کے پیمان وفا
مجھ کو جینے کی دعا دے کوئی

سمجھیں ہم زہر تمنا اس کو
اپنی آنکھوں سے پلا دے کوئی

آس ہی ٹوٹ نہ جائے خالد
جب دوا دے نہ دعا دے کوئی