EN हिंदी
مجھ کو تو مرض ہے بے خودی کا | شیح شیری
mujhko to maraz hai be-KHudi ka

غزل

مجھ کو تو مرض ہے بے خودی کا

جلیلؔ مانک پوری

;

مجھ کو تو مرض ہے بے خودی کا
زاہد کو گمان ہے مے کشی کا

ہر رنگ ہے تیرے آگے پھیکا
مہتاب ہے پھول چاندنی کا

چل جائے گا کام کچھ کسی کا
منہ مڑ نہ گیا اگر چھری کا

ہر وقت ہیں موت کی دعائیں
اللہ رے لطف زندگی کا

آئینہ بنا رہے ہو دل کو
دل ٹوٹ نہ جائے آرسی کا

ہم کہتے تھے جوڑے میں نہیں پھول
آخر نکلا وہ دل کسی کا

کہیے ابھی اک ادا پہ کٹ جائیں
دم دیکھتے تھے فقط چھری کا

مٹتی نہیں دشمنی کسی کی
رنگ اس میں ہے میری دوستی کا

بوسے کو جگہ ملی لبوں پر
اب رنگ جمے گا کیا مسی کا

پیارے پیارے تھے پھول سے ہونٹھ
دھبا یہ برا لگا مسی کا

اٹھلا اٹھلا کے ان کو چلنا
مٹ جائے بلا سے دل کسی کا

پاتے ہیں جو مجھ کو جی سے بیزار
کہتے ہیں مزہ ہے عاشقی کا

ہوں ایک سے سب حسین کیوں کر
ہے رنگ جدا کلی کلی کا

پہلے تو تھے محو دید موسیٰ
اب لیتے مزہ ہیں بے خودی کا

سمجھے تھے نہ ہم کو تم پہ مرنا
ہو جائے گا روگ زندگی کا

شوخی مضمون کی لے اڑی ہے
عالم ہے شعر میں پری کا

کھینچیں جو وہ تیر دل بھی دے ساتھ
حق کچھ تو ادا ہو دوستی کا

نالے بلبل کے تھے کہ چھریاں
دل ٹکڑے ہوا کلی کلی کا

اٹھنے نہ دیا کسی کے در سے
احسان ہے مجھ پہ لاغری کا

پھولوں سے کہو کہ روتی ہے اوس
اب اس سے مزہ نہیں ہنسی کا

کہتے تھے نہ ہم جلیلؔ تم سے
انجام برا ہے دل لگی کا