مجھ کو سزائے موت کا دھوکہ دیا گیا
میرا وجود مجھ میں ہی دفنا دیا گیا
بولو تمہاری ریڑھ کی ہڈی کہاں گئی
کیوں تم کو زندگی کا تماشہ دیا گیا
آنکھوں کو میری سچ سے بچانے کی فکر میں
ٹی وی کے اسکرین پہ چپکا دیا گیا
سازش نہ جانے کس کی بڑی کامیاب ہے
ہر شخص اپنے آپ میں بھٹکا دیا گیا
لہجے میں سچ کا ظہور اگلنے کا جرم تھا
میری غزل کو دھوپ میں جھلسا دیا گیا

غزل
مجھ کو سزائے موت کا دھوکہ دیا گیا
سلیم انصاری