مجھ کو نہیں معلوم کہ وہ کون ہے کیا ہے
جو سائے کے مانند مرے ساتھ لگا ہے
اک اور بھی ہے جسم مرے جسم کے اندر
اک اور بھی چہرہ مرے چہرے میں چھپا ہے
مہتاب تو آئے گا نہ سیڑھی سے اتر کر
دیوانہ کس امید پہ رستے میں کھڑا ہے
ملنے کی تمنا ہے مگر اس سے ملیں کیا
جس شخص کا اس شہر میں گھر ہے نہ پتا ہے
لکھتا ہوں نئی نظم و غزل جس کے سبب میں
وہ ذوق سخن تو مجھے ورثے میں ملا ہے
میداں میں چلے آؤ تو کھل جائے یہ تم پر
کیا شام کی سرشار ہواؤں میں مزا ہے
سوچا تھا مرے ساتھ چلے گا جو سفر میں
گھر پر وہ مرا خواب حسیں چھوٹ گیا ہے
ہم میرؔ کا دیوان تھے کیا فہم پہ کھلتے
اخبار سمجھ کر ہمیں لوگوں نے پڑھا ہے
کہتے ہیں کہ اس شہر میں ہے دھوم ہماری
دیکھا ہے کسی نے نہ جہاں ہم کو سنا ہے
باہر سے کوئی آج تو خاورؔ کو پکارے
کمرے میں بہت روز سے وہ بند پڑا ہے
غزل
مجھ کو نہیں معلوم کہ وہ کون ہے کیا ہے
بدیع الزماں خاور