مجھ کو مرے نصیب نے روز ازل سے کیا دیا
دولت دو جہاں نہ دی اک دل مبتلا دیا
دل ہی نگاہ ناز کا ایک ادا شناس تھا
جلوۂ برق طور نے طور کو کیوں جلا دیا
قبر میں جب کسی طرح دل کی تڑپ نہ کم ہوئی
یاد خرام ناز نے حشر کا آسرا دیا
روز جزا گلہ تو کیا شکر ستم ہی بن پڑا
ہائے کہ دل کے درد نے درد کو دل بنا دیا
اب مری لاش پر حضور موت کو کوستے تو ہیں
آپ کو یہ بھی ہوش ہے کس نے کسے مٹا دیا
دل میں سما کے پھر گئی آس بندھا کے پھر گئی
آج نگاہ دوست نے کعبہ بنا کے ڈھا دیا
اف کہ گناہ گار ہم ہیں تو مگر خطا معاف
آٹھ پہر کے درد نے دل ہی تو ہے دکھا دیا
آپ ہم اپنی آگ میں اے غم عشق جل بجھے
آگ لگے اس آگ کو پھونک دیا جلا دیا
یوں نہ کسی طرح کٹی جب مری زندگی کی رات
چھیڑ کے داستان غم دل نے مجھے سلا دیا
گریۂ آتشیں کی داد دے شب غم تو کون دے
خود سر شام کیا بجھی شمع نے دل بجھا دیا
یاس نے درد ہی نہیں حق تو یہ ہے دوا بھی دی
فانیؔ ناامید کو موت کا آسرا دیا
غزل
مجھ کو مرے نصیب نے روز ازل سے کیا دیا
فانی بدایونی