EN हिंदी
مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے | شیح شیری
mujhko mara hai har ek dard o dawa se pahle

غزل

مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے

فراق گورکھپوری

;

مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے
دی سزا عشق نے ہر جرم و خطا سے پہلے

آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے
ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے

فتنے برپا ہوئے ہر غنچۂ سربستہ سے
کھل گیا راز چمن چاک قبا سے پہلے

چال ہے بادۂ ہستی کا چھلکتا ہوا جام
ہم کہاں تھے ترے نقش کف پا سے پہلے

اب کمی کیا ہے ترے بے سر و سامانوں کو
کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفا سے پہلے

عشق بے باک کو دعوے تھے بہت خلوت میں
کھو دیا سارا بھرم شرم و حیا سے پہلے

خود بخود چاک ہوئے پیرہن لالہ و گل
چل گئی کون ہوا باد صبا سے پہلے

ہم سفر راہ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات
ہم پہنچ جائیں گے اس آبلہ پا سے پہلے

پردۂ شرم میں صد برق تبسم کے نثار
ہوش جاتے رہے نیرنگ حیا سے پہلے

موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات
تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے

بے تکلف بھی ترا حسن خود آرا تھا کبھی
اک ادا اور بھی تھی حسن ادا سے پہلے

غفلتیں ہستئ فانی کی بتا دیں گی تجھے
جو مرا حال تھا احساس فنا سے پہلے

ہم انہیں پا کے فراقؔ اور بھی کچھ کھوئے گئے
یہ تکلف تو نہ تھے عہد وفا سے پہلے