مجھ کو معلوم تھا میں اور سنور جاؤں گا
گھر سے نکلوں گا تو ہر سمت بکھر جاؤں گا
راز موجوں کے سمندر نے بتائے ہیں مجھے
یہاں ڈوبوں گا کہیں اور ابھر جاؤں گا
ابھی سستاؤں گا کچھ دیر اسی دوراہے پر
بعد میں سوچوں گا دیکھوں گا کدھر جاؤں گا
میں تو برزخ کے اندھیروں میں جلاؤں گا چراغ
میں نہیں وہ کہ جو موت آئی تو مر جاؤں گا
زندگی یوں تجھے رہنے نہیں دوں گا بے رنگ
تیری تصویر میں کچھ رنگ تو بھر جاؤں گا
میں ہوں دریا ہے روانی مری دائم بیتابؔ
کوئی سیلاب نہیں ہوں کہ اتر جاؤں گا

غزل
مجھ کو معلوم تھا میں اور سنور جاؤں گا
پرتپال سنگھ بیتاب