EN हिंदी
مجھ کو کہاں گمان گزرتا کہ میں بھی ہوں | شیح شیری
mujhko kahan guman guzarta ki main bhi hun

غزل

مجھ کو کہاں گمان گزرتا کہ میں بھی ہوں

مسلم سلیم

;

مجھ کو کہاں گمان گزرتا کہ میں بھی ہوں
دیکھا تمہیں تو میں نے یہ جانا کہ میں بھی ہوں

میرے بھی بخت میں ہے اندھیرا کہ میں بھی ہوں
سمجھے نہ رات خود کو اکیلا کہ میں بھی ہوں

گھر تو بہا کے لے گیا خاشاک کی طرح
دریا نہ چھوڑ مجھ کو اکیلا کہ میں بھی ہوں

اے کاش چیختا اسے آتا تو میں نظر
اس صاحب نظر نے نہ دیکھا کہ میں بھی ہوں

میں اپنی دھن میں کتنی بلندی پہ آ گیا
کوئی نہیں ہے دیکھنے والا کہ میں بھی ہوں