مجھ کو جہاں میں کوئی دل آرا نہیں ملا
میں خود بھی اپنے غم کا شناسا نہیں ملا
اپنی طلب کے اپنی غرض کے ملے ہیں لوگ
میری طلب کو دیکھنے والا نہیں ملا
پھرتا رہا ہوں کوئے وفا میں تمام عمر
لیکن کہیں بھی کوئی شناسا نہیں ملا
میرے عیوب پر رہی ہر شخص کی نگاہ
کوئی ہنر کو دیکھنے والا نہیں ملا
خنجر بکف تو لوگ ملے ہر جگہ مگر
مرہم بدست کوئی مسیحا نہیں ملا
یہ بھی ہوا کہ میں نے جو سوچا نہیں ہوا
یہ بھی ہوا کہ دل نے جو چاہا نہیں ملا
ملنے گئے تھے رات کو شوکتؔ سے ہم مگر
تھا وہ ہجوم فکر میں تنہا نہیں ملا
غزل
مجھ کو جہاں میں کوئی دل آرا نہیں ملا
شوکت پردیسی