EN हिंदी
مجھ کو اتنا تو یقیں ہے میں ہوں | شیح شیری
mujhko itna to yaqin hai main hun

غزل

مجھ کو اتنا تو یقیں ہے میں ہوں

اظہر عباس

;

مجھ کو اتنا تو یقیں ہے میں ہوں
اور جب تک یہ زمیں ہے میں ہوں

اس سے آگے میں کہاں تک سوچوں
آدمی جتنا ذہیں ہے میں ہوں

یہ جسے ساتھ لیے پھرتا ہوں
یہ کوئی اور نہیں ہے میں ہوں

ایک چھوٹا سا محل سپنوں کا
جس میں اک ماہ جبیں ہے میں ہوں

گھر کے باہر ہے کوئی مجھ جیسا
اور جو گھر میں مکیں ہے میں ہوں

میرے ملبے پہ کھڑے ہیں سب لوگ
دیکھتا کوئی نہیں ہے میں ہوں