مجھ کو ہر لمحہ نئی ایک کہانی دے گا
ہر کہانی میں ترا رنگ دکھائی دے گا
کل جو اک لفظ نہ سنتا تھا صفائی میں مری
آج وہ شخص مرے حق میں گواہی دے گا
جس نے قائم کیا یہ رشتہ قلم سے میرا
اب کہاں وہ مجھے دنیا میں دکھائی دے گا
وقت آخر نہ ملاقات مری اس سے ہوئی
ہر غزل میں مری یہ نوحہ سنائی دے گا
ایک مصرعے کی طرح وہ تو اکیلا ہی رہا
جب بھی دیکھو گے اکیلا ہی دکھائی دے گا
کیوں ہوا تیز چلی نیند سے وہ جاگ پڑا
خواب ٹوٹا ہے تو الزام مجھے ہی دے گا
غزل
مجھ کو ہر لمحہ نئی ایک کہانی دے گا
صاحبہ شہریار