مجھ کو دل قسمت نے اس کو حسن غارت گر دیا
چور کر دے کیوں نہ وہ شیشہ جسے پتھر دیا
اس سے طالب ہوں دیت کا آپ سے مطلب نہیں
جس نے گردن ایک کو دی ایک کو خنجر دیا
تھا مکافات عمل احباب کا حسن عمل
یہ بھی ایسا قرض تھا جو اور سے لے کر دیا
اب نہ ہے فکر حفاظت اور نہ ضیق رفع کار
دینے والے نے دیا اور میری خواہش بھر دیا
گریۂ بے اختیار غم بھی تھا فطری علاج
جس نے تھوڑے جوش کو ہر مرتبہ کم کر دیا
جس میں کیف غم نہیں باز آئے ایسے دل سے ہم
یہ بھی دنیا ہے کوئی مے تو نہ دی ساغر دیا
آرزوؔ اک روز ڈھا دیتا مجھے میرا ہی زور
یہ بھی اس کی کارسازی دل میں جس نے ڈر دیا
غزل
مجھ کو دل قسمت نے اس کو حسن غارت گر دیا
آرزو لکھنوی