مجھ کو دیکھا نہ بات کی کوئی
یہ بھی آخر ادا ہوئی کوئی
مسکرانا بھی کیا غضب ہے ترا
جیسے بجلی چمک گئی کوئی
کب سے ہوں زندگی کے صحرا میں
چھاؤں اب تو ملے گھنی کوئی
ایک شب اور دو ہوں ماہ تمام
آئے پھر ایسی اک گھڑی کوئی
دل کو چھونے سے جو رہے قاصر
وہ بھی قیصرؔ ہے شاعری کوئی

غزل
مجھ کو دیکھا نہ بات کی کوئی
قیصر عثمانی