EN हिंदी
مجھ کو دیکھا نہ بات کی کوئی | شیح شیری
mujhko dekha na baat ki koi

غزل

مجھ کو دیکھا نہ بات کی کوئی

قیصر عثمانی

;

مجھ کو دیکھا نہ بات کی کوئی
یہ بھی آخر ادا ہوئی کوئی

مسکرانا بھی کیا غضب ہے ترا
جیسے بجلی چمک گئی کوئی

کب سے ہوں زندگی کے صحرا میں
چھاؤں اب تو ملے گھنی کوئی

ایک شب اور دو ہوں ماہ تمام
آئے پھر ایسی اک گھڑی کوئی

دل کو چھونے سے جو رہے قاصر
وہ بھی قیصرؔ ہے شاعری کوئی