EN हिंदी
مجھ کو بے خوابی کی ٹہنی پر سسکتے دیکھتا رہتا ہے وہ | شیح شیری
mujhko be-KHwabi ki Tahni par sisakte dekhta rahta hai wo

غزل

مجھ کو بے خوابی کی ٹہنی پر سسکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

نثار ناسک

;

مجھ کو بے خوابی کی ٹہنی پر سسکتے دیکھتا رہتا ہے وہ
اپنی ہی بے دردیوں کو یوں مہکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

صورت مہتاب رہتا ہے مرے سر پر سفر کے ساتھ ساتھ
مجھ کو صحرا کی اداسی میں بھٹکتے رہتا ہے وہ

پیڑ کی صورت کھڑا رہتا ہے میری موج کی سرحد کے پاس
میرے سر پر دھوپ کے نیزے چمکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

رات تھک کر آن گرتا ہے مرے جلتے بدن کی آنچ پر
اپنے آنسو میرے گالوں پر ڈھلکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

میں وہ بوسیدہ سا پیراہن ہوں جو پہنا گیا تھا ایک بار
مجھ کو محرومی کی کھونٹی پر لٹکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

میری ہی مجبوریوں کے ذکر سے ناسکؔ رلاتا ہے مجھے
سامنے اپنے نئے جگنو دمکتے دیکھتا رہتا ہے وہ