مجھ کو اوروں سے کوئی شکوا نہیں
میں نے بھی تو خود کو پہچانا نہیں
سر پہ آ پہنچا ہے سورج کرب کا
ساتھ اپنے سایہ بھی اپنا نہیں
شوق منزل ہی ہے میرا خضر راہ
نقش پا ہر موڑ پر ملتا نہیں
ہو گیا خون حیات اب یوں سفید
جیسے میرا اس سے کچھ رشتہ نہیں
ہے خیال خام وہ میں نے جسے
پیرہن الفاظ کا بخشا نہیں
اب ہے چہروں پر نقاب مصلحت
کوئی چہرہ دل کا آئینہ نہیں
کیوں نہ ہو شعلہ بدامن زندگی
کس طرف اب آگ کا دریا نہیں
پھول کی اک پنکھڑی کہئے اسے
زندگی اک برگ آوارہ نہیں
ذہن شبلیؔ میں ہے اس کی گونج بھی
وقت کے ہونٹوں پہ جو نغمہ نہیں
غزل
مجھ کو اوروں سے کوئی شکوا نہیں
علقمہ شبلی