EN हिंदी
مجھ کو اور کہیں جانا تھا | شیح شیری
mujhko aur kahin jaana tha

غزل

مجھ کو اور کہیں جانا تھا

ناصر کاظمی

;

مجھ کو اور کہیں جانا تھا
بس یوں ہی رستا بھول گیا تھا

دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا

کیسی اندھیری شام تھی اس دن
بادل بھی گھر کر چھایا تھا

رات کی طوفانی بارش میں
تو مجھ سے ملنے آیا تھا

ماتھے پر بوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ہنستا تھا

چاندی کا اک پھول گلے میں
ہاتھ میں بادل کا ٹکڑا تھا

بھیگے کپڑے کی لہروں میں
کندن سونا دمک رہا تھا

سبز پہاڑی کے دامن میں
اس دن کتنا ہنگامہ تھا

بارش کی ترچھی گلیوں میں
کوئی چراغ لیے پھرتا تھا

بھیگی بھیگی خاموشی میں
میں ترے گھر تک ساتھ گیا تھا

ایک طویل سفر کا جھونکا
مجھ کو دور لیے جاتا تھا