محاسبہ کیا نہ جائے اس میں کس کا کیا گیا
نہ مجھ سے ہی رہا گیا نہ اس سے کچھ سہا گیا
یہ دل سے دل کا واسطہ بھی کتنا دل فریب ہے
جگی ہے دل میں روشنی کہ تیرا درد بھا گیا
یہ کس کے نقش پا پہ سب نے اعتبار کر لیا
یہ کون پیش رو بنا کہ راستہ بنا گیا
نظر ملا کے اس سے میری بات تک نہیں ہوئی
مرے معاملے میں جانے کون کیا لگا گیا
ابھی بھی میری جیب میں ہے روشنی بچی ہوئی
اندھیرا کس امید پر مرے قریب آ گیا
یہ نیل مجھ سے کہہ رہا ہے طنز کی زبان میں
وہاں پہ جا صدا لگا جہاں ترا عصا گیا
مجھے پتہ نہیں ملک کہ کس مقام پر ہوں میں
زباں سے جو نکل گئی اسے ادب لکھا گیا

غزل
محاسبہ کیا نہ جائے اس میں کس کا کیا گیا
خورشید احمد ملک