مدتوں سے کوئی پیغام نہیں آتا ہے
جذبۂ دل بھی مرے کام نہیں آتا ہے
ہائے انداز تغافل کہ دم ذکر وفا
یاد ان کو بھی مرا نام نہیں آتا ہے
اف وہ معصوم و حیا ریز نگاہیں جن پر
قتل کے بعد بھی الزام نہیں آتا ہے
کام کچھ میری تباہی کے سوا دنیا میں
تجھ کو اے گردش ایام نہیں آتا ہے
مہرباں دیدۂ ساقی کو اسی پر دیکھا
جس کو طرز طلب جام نہیں آتا ہے
اب ہے یہ عالم مایوس محبت انورؔ
ان کے جلووں سے بھی آرام نہیں آتا ہے

غزل
مدتوں سے کوئی پیغام نہیں آتا ہے
انور صابری