مدتوں کے بعد جب پہنچا وہ اپنے گاؤں میں
جھریاں چہرے پہ تھیں اور آبلے تھے پاؤں میں
اب تو شاید گر گیا ہوگا وہ پیپل کا درخت
بچپنے میں ہم ملا کرتے تھے جس کی چھاؤں میں
کون آئے گا مری دہلیز پہ برسوں کے بعد
آج ہم پھر کھو گئے کوے کے کاؤں کاؤں میں
تاکہ مجھ پہ شہر کی عریانیاں غالب نہ ہوں
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا ہوں میں اپنے گاؤں میں
ایک سمندر آنکھ میں تھا موجزن طالبؔ مگر
عمر بھر ہم تشنہ لب بھٹکا کیے صحراؤں میں
غزل
مدتوں کے بعد جب پہنچا وہ اپنے گاؤں میں
اعجاز طالب