مدت سے لاپتہ ہے خدا جانے کیا ہوا
پھرتا تھا ایک شخص تمہیں پوچھتا ہوا
وہ زندگی تھی آپ تھے یا کوئی خواب تھا
جو کچھ تھا ایک لمحے کو بس سامنا ہوا
ہم نے ترے بغیر بھی جی کر دکھا دیا
اب یہ سوال کیا ہے کہ پھر دل کا کیا ہوا
سو بھی وہ تو نہ دیکھ سکی اے ہوائے دہر
سینے میں اک چراغ رکھا تھا جلا ہوا
دنیا کو ضد نمائش زخم جگر سے تھی
فریاد میں نے کی نہ زمانہ خفا ہوا
ہر انجمن میں دھیان اسی انجمن کا ہے
جاگا ہو جیسے خواب کوئی دیکھتا ہوا
شاید چمن میں جی نہ لگے لوٹ آؤں میں
صیاد رکھ قفس کا ابھی در کھلا ہوا
یہ اضطراب شوق ہے اخترؔ کہ گمرہی
میں اپنے قافلے سے ہوں کوسوں بڑھا ہوا
غزل
مدت سے لاپتہ ہے خدا جانے کیا ہوا
اختر سعید خان