مدت سے جسم برف میں جکڑا ہوا سا ہے
ماحول میرے سینے میں بیٹھا ہوا سا ہے
کہرے میں آنکھ پھوٹ گئی تب خبر ملی
سورج مری تلاش میں نکلا ہوا سا ہے
ہر آنکھ مجھ پہ پڑتی ہے تلوار کی طرح
ہر شخص میرے خوں میں نہایا ہوا سا ہے
نفرت کے جس پہاڑ کے نیچے کھڑا ہوں میں
وہ ساری کائنات پہ پھیلا ہوا سا ہے
گھر میں دھواں بھرا ہے کہ بیٹھوں تو دم گھٹے
باہر تمام شہر سلگتا ہوا سا ہے
ہاں میں غنودگی کے دھندلکے میں ہوں اسیر
ہاں میرا ذہن صدیوں کا جاگا ہوا سا ہے
غزل
مدت سے جسم برف میں جکڑا ہوا سا ہے
منظر سلیم