مدت سے آدمی کا یہی مسئلہ رہا
پتھر درخت آدمی اس کا خدا رہا
دفتر میں فائلوں سے الجھنے کے ساتھ ساتھ
اک شخص کار عشق میں بھی مبتلا رہا
پہلے وہ کار عشق میں الجھا رہا بہت
پھر خود میں وہ خدا کا نشاں ڈھونڈھتا رہا
جو کر نہیں سکا نہ سنا اس کا ماجرا
جو کام کر رہا تھا بتا اس کا کیا رہا
لمحوں کی سوئی تھک کے بہت سست ہو گئی
کھڑکی سے بار بار کوئی جھانکتا رہا
بستر پہ اپنے آ کے محبت کو سوچ کر
پنکھے کے پار چھت کو یونہی دیکھتا رہا
غزل
مدت سے آدمی کا یہی مسئلہ رہا
عمران شمشاد