مدت کے بعد منہ سے لگی ہے جو چھوٹ کر
تو یہ بھی مے پہ گرتی ہے کیا ٹوٹ ٹوٹ کر
مہندی تھا میرا خون کہ ہوتا جو رائیگاں
اک شب کے بعد ہاتھ سے قاتل کے چھوٹ کر
پہلا ہی دن تھا ہم کو کیے ترک مے کشی
کیا کیا پڑا ہے رات کو مینہ ٹوٹ ٹوٹ کر
صبر و قرار لے کے دیا داغ آرزو
آباد تم نے دل کو کیا مجھ کو لوٹ کر
حیرت ہے میرے اختر بخت سیاہ کو
کیوں کر گہن سے چاند نکلتا ہے چھوٹ کر
اللہ رے آنسوؤں کا کھٹکنا فراق میں
آنکھوں میں بھر گیا کوئی الماس کوٹ کر
ٹپکے نہیں قلم کے فقط اشک نامہ پر
وہ کچھ لکھا کہ روئی سیاہی بھی پھوٹ کر
کر بند و بست ابھی سے نہ گلشن میں باغباں
وہ دن تو ہو کہ مرغ قفس آئیں چھوٹ کر
صد حیف سرگذشت جو اپنی کہی جلالؔ
تو اس کو داستان سمجھ سچ کو جھوٹ کر
غزل
مدت کے بعد منہ سے لگی ہے جو چھوٹ کر
جلالؔ لکھنوی