مدت ہوئی اس جان حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا
جتنے بھی بد نام ہوئے ہم اتنا اس نے پیار کیا
پہلے بھی خوش چشموں میں ہم چوکنا سے رہتے تھے
تیری سوئی آنکھوں نے تو اور ہمیں ہوشیار کیا
جاتے جاتے کوئی ہم سے اچھے رہنا کہہ تو گیا
پوچھے لیکن پوچھنے والے کس نے یہ بیمار کیا
قطرہ قطرہ صرف ہوا ہے عشق میں اپنے دل کا لہو
شکل دکھائی تب اس نے جب آنکھوں کو خوں بار کیا
ہم پر کتنی بار پڑے یہ دورے بھی تنہائی کے
جو بھی ہم سے ملنے آیا ملنے سے انکار کیا
عشق میں کیا نقصان نفع ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے ساری عمر ہی یارو دل کا کاروبار کیا
محفل پر جب نیند سی چھائی سب کے سب خاموش ہوئے
ہم نے تب کچھ شعر سنایا لوگوں کو بے دار کیا
اب تم سوچو اب تم جانو جو چاہو اب رنگ بھرو
ہم نے تو اک نقشہ کھینچا اک خاکہ تیار کیا
دیش سے جب پردیش سدھارے ہم پر یہ بھی وقت پڑا
نظمیں چھوڑی غزلیں چھوڑی گیتوں کا بیوپار کیا
غزل
مدت ہوئی اس جان حیا نے ہم سے یہ اقرار کیا
جاں نثاراختر