مبتلا خود کو کسی غم میں مسلسل رکھنا
اور اس غم کو تری آنکھ سے اوجھل رکھنا
چاند کھڑکی میں کبھی دھوپ میں بادل رکھنا
دھیان رکھنا جو کسی کا تو ہر اک پل رکھنا
چلنا سیکھا ہی نہیں راہ سے ہٹ کر ہم نے
اک قدم اس کی طرف اک سوئے مقتل رکھنا
دیکھنا ماند نہ پڑ جائیں غم ہجر میں یہ
تم شب وصل کا ان آنکھوں میں کاجل رکھنا
اک ذرا بات سے اس جان پہ بن آتی تھی
راس آیا بھی تو غم سے اسے بوجھل رکھنا
جس کو کہنا تھا اسی کو نہیں کہنا اور پھر
کیسے اندیشوں میں خود کو یونہی پاگل رکھنا
ایسا لگنا کہ یہ آنکھیں تو برستی ہی نہیں
سیل غم سے مگر اندر کوئی جل تھل رکھنا
ہم تو اس عرصۂ ہستی میں جھلستے ہی رہے
نہ ہوا دھوپ میں اک خواب کا بادل رکھنا

غزل
مبتلا خود کو کسی غم میں مسلسل رکھنا
خالد محمود ذکی