EN हिंदी
مبہم تخیلات کے پیکر تراشنا | شیح شیری
mubham taKHaiyyulat ke paikar tarashna

غزل

مبہم تخیلات کے پیکر تراشنا

قمر سنبھلی

;

مبہم تخیلات کے پیکر تراشنا
ہے مشغلہ خلاؤں میں منظر تراشنا

لڑنا ہر ایک لمحہ سمندر سے رات کے
اور خواب کے جزیرے میں اک گھر تراشنا

آنکھوں کو میری آپ نے سونپا ہے خوب کام
جگنو اچھالنا کبھی گوہر تراشنا

پیشانیوں پہ لکھنا خود اپنا ہمیں نصیب
ہاتھوں سے اپنے اپنا مقدر تراشنا

پیہم سلگتی دھوپ میں جلنا تمام دن
شب بھر حسین خوابوں کے پیکر تراشنا

کیا خوب لطف دینے لگی خود اذیتی
اچھا لگا خود اپنا ہمیں سر تراشنا

لہجے کی نرمیوں سے قمرؔ میرا رابطہ
ان کو عزیز طنز کے نشتر تراشنا