معاف کیجیے گستاخیاں ہماری ہیں
لبوں پہ آپ کے یہ تتلیاں ہماری ہیں
یہ چیت کا ہے مہینہ تمہاری یاد بھرا
کہ ان دنوں بڑی سرگرمیاں ہماری ہیں
تمہارے ہونٹوں سے کچھ رابطے ہیں گہرے سے
تمہاری آنکھوں میں دلچسپیاں ہماری ہیں
ہر ایک لفظ ہے پھیکا ہے بے سواد سا ہے
بہت لذیذ یہ خاموشیاں ہماری ہیں
بھری دوپہری میں پھیلا ہے شور یادوں کا
تمہاری الگنی پر ہچکیاں ہماری ہیں
غزل
معاف کیجیے گستاخیاں ہماری ہیں
سدیش کمار مہر