موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا ترے وجود کا حصہ تو میں بھی ہوں
اے قہقہے بکھیرنے والے تو خوش بھی ہے
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
مجھ میں اور اس میں صرف مقدر کا فرق ہے
ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں
اس کی تو سوچ دنیا میں جس کا کوئی نہیں
تو کس لیے اداس ہے تیرا تو میں بھی ہوں
اک ایک کر کے ڈوبتے تارے بجھا گئے
مجھ کو بھی ڈوبنا ہے ستارہ تو میں بھی ہوں
اک آئنے میں دیکھ کے آیا ہے یہ خیال
میں کیوں نہ اس سے کہہ دوں کہ تجھ سا تو میں بھی ہوں
غزل
موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
تیمور حسن