محتاج اجل کیوں ہے خود اپنی قضا ہو جا
غیرت ہو تو مرنے سے پہلے ہی فنا ہو جا
اے شوق طلب بڑھ کر مجنون ادا ہو جا
اے ہمت مردانہ راضی بہ رضا ہو جا
آغوش فنا میں ہم پروردۂ آفت ہیں
اے فتنۂ دوراں اٹھ اے حشر بپا ہو جا
ضد اور یہ ضد اے دل اچھا تو خدا حافظ
قربان ہی اس بت پر ہوتا ہے تو جا ہو جا
اس جان تمنا سے بے پردہ نہ شکوہ کر
وہ تجھ سے خفا ہے تو جینے سے خفا ہو جا
ہر قافلۂ دل کو تو مژدۂ منزل دے
ہر رہ گزر غم میں نقش کف پا ہو جا
یہ درد محبت بھی کیا شے ہے معاذ اللہ
میں درد محبت سے کہتا ہوں سوا ہو جا
ظالم کا نہ شکوہ کر ظلموں کی نہ پروا کر
تو اپنی وفاؤں کی عزت پہ فدا ہو جا
اس ہستئ فانی سے کر قطع نظر فانیؔ
تو دوست کا طالب ہے دشمن سے جدا ہو جا
غزل
محتاج اجل کیوں ہے خود اپنی قضا ہو جا
فانی بدایونی