مہر بن کر جو میں اک روز بھی ابھرا ہوتا
برف کی طرح ہے جو شخص وہ دریا ہوتا
تجھ سے دل کش ہے کہیں تیرے تصور کا جہاں
تو مرے پاس بھی ہوتا تو میں تنہا ہوتا
اپنے ماحول کو ہر پھول نے مہکایا ہے
مجھ کو ہونا تھا کسی کا تو میں اپنا ہوتا
پوچھتا کون ہے سیپی میں چھپے موتی کو
جو ترے دل میں تھا ہونٹوں پہ بھی آیا ہوتا
کس نے رکھا ہے مرے سر پہ کڑی دھوپ میں ہاتھ
چھت جو ہوتی تو مرے گھر میں بھی سایا ہوتا
یوں گزرتا نہ ترے سر سے یہ پانی خاورؔ
تو نے طوفان کو اٹھتے ہی جو روکا ہوتا
غزل
مہر بن کر جو میں اک روز بھی ابھرا ہوتا
خاقان خاور