EN हिंदी
مہر بن کر جو میں اک روز بھی ابھرا ہوتا | شیح شیری
mohr ban kar jo main ek roz bhi ubhra hota

غزل

مہر بن کر جو میں اک روز بھی ابھرا ہوتا

خاقان خاور

;

مہر بن کر جو میں اک روز بھی ابھرا ہوتا
برف کی طرح ہے جو شخص وہ دریا ہوتا

تجھ سے دل کش ہے کہیں تیرے تصور کا جہاں
تو مرے پاس بھی ہوتا تو میں تنہا ہوتا

اپنے ماحول کو ہر پھول نے مہکایا ہے
مجھ کو ہونا تھا کسی کا تو میں اپنا ہوتا

پوچھتا کون ہے سیپی میں چھپے موتی کو
جو ترے دل میں تھا ہونٹوں پہ بھی آیا ہوتا

کس نے رکھا ہے مرے سر پہ کڑی دھوپ میں ہاتھ
چھت جو ہوتی تو مرے گھر میں بھی سایا ہوتا

یوں گزرتا نہ ترے سر سے یہ پانی خاورؔ
تو نے طوفان کو اٹھتے ہی جو روکا ہوتا