محبتوں میں کوئی تمہارا یہ حال کر دے تو کیا کرو گے
بلا کے گھر میں وہ نائن ون ون کو کال کر دے تو کیا کرو گے
گرین کارڈ اس سے لے رہے ہو مگر نتیجہ بھی یاد رکھنا
یہاں کی کالی تمہارے چہرے کو لال کر دے تو کیا کرو گے
یہ میں نے مانا تمہارے ہاتھوں میں سنگ مرمر کی انگلیاں ہیں
کوئی حسینہ جو کانچ کا دل اچھال کر دے تو کیا کرو گے
جو تم پڑوسن کو اپنی بیوی سے چھپ کے پرفیوم دے رہے ہو
وہ جوتیوں سے یہ پیشکش لا زوال کر دے تو کیا کرو گے
زرینہ جب سے بڑی ہوئی ہے تم اس کی زر قربتی نہ پوچھو
اچھال کر دینے والے سکے نکال کر دے تو کیا کرو گے
قلم سے کاتب یہ لکھ رہا ہے دلیل صبح بہار ہو تم
دلیل کی دال کو بدل کر وہ زال کر دے تو کیا کرو گے
مشاعروں میں الٹ پلٹ کے وہ چار غزلیں سنانے والو
اگر کوئی پانچویں غزل کا سوال کر دے تو کیا کرو گے
غزل
محبتوں میں کوئی تمہارا یہ حال کر دے تو کیا کرو گے
خالد عرفان