محبتوں میں جو مٹ مٹ کے شاہکار ہوا
وہ شخص کتنا زمانے میں یادگار ہوا
تری ہی آس میں گزرے ہیں دھوپ چھاؤں سے ہم
تری ہی پیاس میں صحرا بھی خوش گوار ہوا
نہ جانے کتنی بہاروں کی دے گیا خوشبو
وہ اک بدن جو ہمارے گلے کا ہار ہوا
تمہارے بعد تو ہر اک قدم ہے بن باس
ہمارا شہر کے لوگوں میں کب شمار ہوا
خود اپنے آپ سے لینا تھا انتقام مجھے
میں اپنے ہاتھ کے پتھر سے سنگسار ہوا
یہ ایک جان بھی لیتا ہے اشکؔ قسطوں میں
ذرا سا کام بھی اس سے نہ ایک بار ہوا
غزل
محبتوں میں جو مٹ مٹ کے شاہکار ہوا
ابراہیم اشکؔ