محبتوں میں بھی مال و منال مانگتے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں اجر وصال مانگتے ہیں
وبال جاں تھے شب و روز کل جو اپنے لیے
گزر گئے تو وہی ماہ و سال مانگتے ہیں
سمجھ میں آیا نہیں ان کا مدعا کیا ہے
لکھیں جواب تو پھر وہ سوال مانگتے ہیں
محبتوں کی دکانیں اجڑنے والی ہیں
عروج دیکھ چکے ہیں زوال مانگتے ہیں
دل و دماغ کی یہ خوشہ چینیاں دیکھو
تجھے گنوا کے ترے خد و خال مانگتے ہیں
کہیں تو بھول ہوئی ہے کہ آج تیرے لیے
عروج مانگنے والے زوال مانگتے ہیں
وہ تجھ سے کرتے ہیں میری شکایتیں لیکن
مجھی سے وہ ترے خواب و خیال مانگتے ہیں
غزل
محبتوں میں بھی مال و منال مانگتے ہیں
صفدر سلیم سیال