محبتوں کو کہیں اور پال کر دیکھو
متاع جاں کو بدن سے نکال کر دیکھو
بدل کے دیکھو کبھی نسبتوں کی دنیا کو
بدن کو روح کے خانے میں ڈال کر دیکھو
سنو اسے تو سماعت سے ماورا ہو کر
جو دیکھنا ہو تو آنکھیں نکال کر دیکھو
یقین دشت سے پھوٹے گا آب جو کی طرح
کہ حرف ''لا'' کی گواہی بحال کر دیکھو
نفس نفس ہے یہاں مقبرہ عقیدت کا
یہ مقبروں کا جہاں پائمال کر دیکھو
اسی ہوا میں محبت کا دیپ جلتا ہے
اسی جہاں کو جہان وصال کر دیکھو
وہ سنگ دے تو حرارت نچوڑ لو اپنی
جو پھول دے تو نگاہ کمال کر دیکھو
پھر اس کے بعد کوئی ڈر نہیں تلاطم کا
اس ایک بوند کے غم کو وشال کر دیکھو
بدن کی پیاس بھی اک ماورا کہانی ہے
ہر ایک بوند کو دریا خیال کر دیکھو
پلٹ کے آئیں گے ساون کے رنگ آنکھوں میں
تم اپنے آپ سے رشتہ بحال کر دیکھو
وہ بولتا ہے پہاڑوں کی اوٹ سے اکثر
کسی پہاڑ سے اس کا سوال کر دیکھو
یہ راز اور کہاں تک ہمیں نبھانا ہے
کبھی تو رات میں سورج نکال کر دیکھو
تم اپنے گوہر یکتا کو اس طرح ڈھونڈو
کہ خود کو بے سر و ساماں خیال کر دیکھو
جو دیکھنا ہو کبھی دوستوں کا دل احمدؔ
کھرے اصول کا پتا اچھال کر دیکھو
غزل
محبتوں کو کہیں اور پال کر دیکھو
احمد شناس