محبتوں کے پلے کیسے نفرتوں میں ڈھلے
یہ سوچ سوچ کے ہم شہر تیرا چھوڑ چلے
اسی خیال سے کرتا نہیں پر افشانی
مرے پروں کی رگڑ سے کہیں فلک نہ جلے
یہ کہہ رہی تھی حسینہ تماش بینوں سے
جو آپ لوگ ہیں اچھے تو ہم برے ہی بھلے
حیات و موت کہانی ہے سائبانوں کی
کبھی فلک کے تلے ہم کبھی زمیں کے تلے
ترے فراق کے صدمے قبول ہیں لیکن
جفا کے بعد چلے تو وفا کا دور چلے
یہ جانشین قمر میری دسترس میں نہیں
دیے کی موج ہے بجھ کر جلے جلے نہ جلے
عجب طریق سے اترا وصال کا لمحہ
پڑے ہیں جان کے لالے لگا کے اس کو گلے
غزل
محبتوں کے پلے کیسے نفرتوں میں ڈھلے
جان کاشمیری