محبت میں زباں کو میں نواسنج فغاں کر لوں
شکستہ دل کی آہوں کو حریف ناتواں کر لوں
نہ میں بدلا نہ وہ بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبار انقلاب ناتواں کر لوں
نہ کر محو تماشا اے تحیر اتنی مہلت دے
میں ان سے داستان درد دل کو تو بیاں کر لوں
سبب ہر ایک مجھ سے پوچھتا ہے میرے ہونے کا
الٰہی ساری دنیا کو میں کیوں کر رازداں کر لوں
غزل
محبت میں زباں کو میں نواسنج فغاں کر لوں
تاجور نجیب آبادی