محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفیؔ
لیے داغ جدائی حسرت ناکام ہے صوفیؔ
اگر الزام ہے کوئی تو یہ الزام ہے صوفیؔ
کہ تو اپنی شرافت کے لیے بدنام ہے صوفیؔ
ہمیں ہر دور میں تھے گردش ایام کے مارے
مگر ہم سے علاج گردش ایام ہے صوفیؔ
بہ فیض رسم مے خانہ بدلتے ہی رہے ساقی
جو بن مانگے پلائے ساقیٔ گلفام ہے صوفیؔ
کشاکش ہاۓ ہستی نے جسے دیوانگی بخشی
وہ دیوانہ حریف تلخیٔ ایام ہے صوفیؔ
ترے گیتوں کی جھنکاروں سے دنیا گونج تو اٹھی
مگر کاشی کی نگری میں بڑا گمنام ہے صوفیؔ

غزل
محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفیؔ
صغیر احمد صوفی