EN हिंदी
محبت میں شکایت کر رہا ہوں | شیح شیری
mohabbat mein shikayat kar raha hun

غزل

محبت میں شکایت کر رہا ہوں

تری پراری

;

محبت میں شکایت کر رہا ہوں
شکایت میں محبت کر رہا ہوں

سنا ہے عادتیں مرتی نہیں ہیں
سو خود کو ایک عادت کر رہا ہوں

وہ یوں بھی خوب صورت ہے مگر میں
اسے اور خوب صورت کر رہا ہوں

کسے معلوم کب آئے قیامت
سو ہر دن اک قیامت کر رہا ہوں

اداسی سے بھری آنکھیں ہیں اس کی
میں صدیوں سے زیارت کر رہا ہوں

ضرورت ہی نہیں میری کسی کو
سو خود کو اپنی چاہت کر رہا ہوں