محبت میں شکایت کر رہا ہوں
شکایت میں محبت کر رہا ہوں
سنا ہے عادتیں مرتی نہیں ہیں
سو خود کو ایک عادت کر رہا ہوں
وہ یوں بھی خوب صورت ہے مگر میں
اسے اور خوب صورت کر رہا ہوں
کسے معلوم کب آئے قیامت
سو ہر دن اک قیامت کر رہا ہوں
اداسی سے بھری آنکھیں ہیں اس کی
میں صدیوں سے زیارت کر رہا ہوں
ضرورت ہی نہیں میری کسی کو
سو خود کو اپنی چاہت کر رہا ہوں
غزل
محبت میں شکایت کر رہا ہوں
تری پراری