محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا
بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا
گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحن دل میں ہم کو
گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا
اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہر آرزو کی
پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا
کوئی تو بات کرنا چاہئے تھی خود سے آخر
کہیں تو مجھ کو بھی یہ دل لگانا چاہئے تھا
کبھی تو اہتمام آرزو بھی تھا ضروری
کوئی تو زیست کرنے کا بہانا چاہئے تھا
مری اپنی اور اس کی آرزو میں فرق یہ تھا
مجھے بس وہ اسے سارا زمانہ چاہئے تھا
غزل
محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا
بشریٰ اعجاز