محبت میں جفا کیا ہے وفا کیا
وہ یہ پوچھیں تو شکوؤں کا مزا کیا
قیامت سے ڈراتی کیوں ہے دنیا
قیامت سے ہے کم ان کی ادا کیا
جہاں توہین عرض و التجا ہو
وہاں پر عرض کیسی التجا کیا
بغاوت اور پھر ان کی رضا سے
محبت میں دعا کیا مدعا کیا
کسی دشت و بیاباں کی اک آواز
ہمارے ساز ہستی کی صدا کیا
مری نظروں سے پوچھو حسن اپنا
بتا سکتا ہے تم سے آئنہ کیا
بجز اشکوں کی بوندیں اور آہیں
جلیلؔ آخر محبت سے ملا کیا
غزل
محبت میں جفا کیا ہے وفا کیا
جلیل فتح پوری