محبت کیا محبت کا صلا کیا
غم بربادئ جنس وفا کیا
دل بے مدعا کا مدعا کیا
ہمارا حال ہم سے پوچھنا کیا
ہمیں دنیا میں اپنے غم سے مطلب
زمانے کی خوشی سے واسطا کیا
ستم ہائے فراواں چاہتا ہوں
کرم کی آرزو کیا التجا کیا
ہم اس کے اور اس کا غم ہمارا
اس انداز کرم کا پوچھنا کیا
رہا دل کو نہ اب ذوق ستم کیوں
وہ ہیں آمادۂ ترک جفا کیا
ترے غم کے سہارے جی رہے ہیں
ہماری آرزو کیا مدعا کیا
بہاروں پر خزاں صرف اثر ہے
مآل غنچہ و گل دیکھنا کیا
تعلق اور ترے غم سے تعلق
عروج بخت اخترؔ پوچھنا کیا
غزل
محبت کیا محبت کا صلا کیا
علیم اختر